ارشد شریف کے حوالے سے جو اطلاعات سامنے آ رہی ہیں، ان کے مطابق وہ کینیا اپنی جان بچانے اور روپوش ہونے کے لئے گئے تھے۔
ان کے حوالے سے یہ دعوے کئے گئے کہ وہ لندن گئے اور پھر وہاں سے کینیا چلے گئے۔
بظاہر یہ دعوے غلط لگ رہے ہیں۔ جن صحافیوں نے ارشد شریف سے رابطوں کااعتراف کیا، وہ سب فون کالز تھیں، ملاقات کسی کی نہیں ہوئی ۔ ممکن ہے دانستہ ارشد شریف نے تاثر دیا ہوں کہ میں لندن ہوں۔
ان کی بیوہ کے بیان کے مطابق وہ دوبئی سے کینیا اس لئے گئے تھے کہ دوبئی کا ویزا ختم ہوگیا تھا اور ان کے پاس کسی دوسرے ملک کا ویزا موجود نہیں تھا۔
کینیا کا ویزا پاکستانی پاسپورٹ کے لئے آن ارائول ائیرپورٹ پر ہی مل جاتا ہے۔
بظاہر ارشد شریف کے کینیا جانے کی یہی وجہ نظر آ رہی ہے۔
ان کی اہلیہ کے مبینہ بیان کے مطابق ارشد شریف نے گھر والوں سے بھی یہ چھپایا کہ وہ کہاں رہ رہے ہیں، صرف اتنا کہا کہ ایک افریقی ملک میں ہوں۔ ممکنہ طور پر اس اندیشے کے پیش نظر کہ کہیں کالز ریکارڈ نہ ہو رہی ہوں۔ واضح رہے کہ واٹس ایپ کالز محفوظ سمجھی جاتی ہیں، مگر کہا جاتا ہے کہ اب وہ بھی نہیں رہیں۔
اگر یہ دونوں باتیں درست ہیں یعنی وہ دوبئی سے سیدھے نیروبی کینیا گئے، لندن نہیں گئے تھے اور انہوں نے اپنی بیگم سے بھی یہ چھپایا کہ وہ کس ملک میں موجود ہیں۔
اس کا واضح مطلب یہی نکلتا ہے کہ ان کی جان خطرے میں تھی اور وہ اپنے ٹھکانے کا پتہ ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے۔
کینیا کے اخبارات کی رپورٹوں، مقامی صحافیون کے ٹوئٹس وغیرہ سے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ اس واقعے میں ایک طرح کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی ۔ تمام گولیاں ڈرائیور کے بجائے ارشد شریف کا نشانہ لے کر چلائی گئیں۔
یہ کہانی احمقانہ ہے کہ ایک بچہ اغوا ہوا اور اغوا کار کی گاڑی روکنے کی کوشش کی گئی۔ جس کار میں مغوی بچہ ہو، اس پر کیا اندھا دھند گولیاں چلائی جاتی ہیں؟
ان تمام چیزوں سے اس مطالبہ کو تقویت ملتی ہے کہ اس واقعے کی تفصیلی جانچ کی جائے، سٹیٹ لیول پر انکوائری ہو اور قابل اعتماد افراد کو تحقیقات کے لئے مقرر کیا جائے۔
بہتر ہوگا کہ تحقیقات کے لئے ایک جے آئی ٹی کو کینیا بھیجا جائے جو مقامی پولیس سے شواہد مانگے اور گولی چلانے والے مبینہ پولیس والوں کے انٹرویوز بھی کرے۔
0 Comments